تحریر: ہاشم خاکوانی
جب کارکن گرفتار ہوں، اندر چلے جائیں تو کہیں نہ کہیں پارٹی قیادت پر بھی دبائو آتا ہے۔ پارٹیاں کارکنوں کے زور پر ہی چلتی ہیں۔ خاص کر اپوزیشن تو ہوتی ہے ساری کارکنوں کے ساتھ ہے۔ حکومت پارٹی اور کارکنوں کے بغیر بھی چلائی جا سکتی ہے، اپوزیشن نہیں۔ یہ سب چیزیں عمران خان کے سوچنے والی ہیں۔
خان صاحب کے لئے اصل چیلنج تو خود کو باہر رکھنا ہے۔ ان کے گرد گھیرا بہت تنگ ہوچکا ہے۔ نیب یا کسی بھی دوسرے مقدمے میں ان کی گرفتاری یقنی ہے ۔ اس بار قانونی تقاضے پورے کئے جائیں گے تاکہ عدالت فوری ریلیف نہ دے سکے۔
سوال یہ ہے کہ عمران خان گرفتار ہوگئے تب کیا ہوگا؟
خان صاحب نے کچھ عرصہ پہلے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بنائی تھی جو ان کی عدم موجودگی میں پارٹی معاملات چلائے گی، اس میں فواد چودھری، اسد عمر،حماد اظہر، حسام نیازی، پرویز خٹک وغیرہ شامل ہیں۔ مسئلہ تب بنے گا جب اس کمیٹی کے بھی اکثر یا سب لوگ اندر ہوجائیں ۔
لیول پلیئنگ فیلڈ
خان صاحب کے لئے اصل مسئلہ ان کی زیادہ عوامی مقبولیت یا پزیرائی اور اپنے مخالفین سے کہیں زیادہ طاقتور پوزیشن میں ہونا ہے۔ اگر اگلے چند ماہ میں الیکشن ہوں تو تحریک انصاف کے واضح اکثریت سے جیتنے کے قوی امکانات ہیں۔
یہ وہ بات ہے جسے پی ڈی ایم کسی بھی صورت گوارا نہیں کرے گا۔
اس لئے ایک پلان شروع ہی سے یہ تھا کہ خان صاحب کو گرفتار کر کے نااہل کر دیا جائے، پارٹی کے اکثر اہم لیڈر اور بڑی تعداد میں کارکنوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہو۔ ممکن ہو تو پارٹی کے دو تین ٹکڑے کر دئیے جائیں اور جب یہ اس درجہ کمزور ہوجائیں پھر الیکشن کا سوچا جائے، مگر اس سے پہلے میاں نواز شریف کی نااہلی اور تاحیات سزا ختم ہوجائے اوروہ واپس آ کر نئے جوش وعزم کے ساتھ ن لیگ کی قیادت کریں۔
مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم اسے ہی لیول فیلڈ قرار دیتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جس طرح دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں ن لیگ پر دبائو ڈالا گیا تھا، میاں نواز شریف جیل میں تھے اور اسٹیبلشمنٹ کھل کر عمران خان کو سپورٹ کر رہی تھی۔ اس صورتحال کو ریورس کر کے وہ تمام فیور پی ڈی ایم کو دی جائے اور تمام مشکلات اس بار پی ٹی آی کے لئے ہوں۔
مریم نواز شریف کئی بار اپنے اس ارادے ، سوچ اور فینٹسی کو بیان کر چکی ہیں۔ ان کے خیال میں دوہزار اٹھارہ والی صورتحال کو الٹ کرکے ہی لیول پلئنگ فیلڈ بن سکتی ہے۔ بظاہر تو یہ لگ رہا ہے کہ عمران خان کے تمام مخالفوں کی یہی رائے ہے۔
غلطی جو دہرانی نہیں چاہیے
ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ میں بڑا فرق ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی حوالے سے انوالمنٹ پر تنقید ہوتی رہتی ہے۔
فوج سے ہم سب فوجی جوان، افسر اور پورا ادارہ مراد لیتے ہیں جو ملک کا دفاع کرتے ، سرحد کی حفاظت کرتے اور دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ مخالفین کے دِلوں میں بھی فوج کے لئے نرم گوشہ ہوتا ہے کیونکہ یہ ہماری فوج ہے اور ہمارا ہی ادارہ ہے، اسی نے ملکی دفاع کرنا ہے۔
یہ بات ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی سمجھنا چاہیے ۔ تحریک انصاف کے بہت سے کارکن نو مئی کو یہ اہم ترین نکتہ اور ریڈ لائن بھول گئے تھے۔
ان سے جو بلنڈر ہوا ، اس کے بعد عمران خان کو باہر آ کر ڈیمیج کنٹرول کرنا چاہیے تھا، افسوس خان صاحب ایسا نہ کر پائے، تھوڑی بہت کوشش کی، مگر وہ کافی نہیں تھی۔
آگے کیا ہوسکتا ہے؟
یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستانی فورسز پاکستانیوں کی زندگی میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں ۔ خاص کر پنجاب، کے پی اور کراچی وغیرہ میں ۔
اس لئےیہ ضروری نہیں کہ جو لوگ پی ٹی آئی سے الگ ہو رہے ہیں یا خاموش ہیں یا نسبتاً غیر فعال ہیں، وہ سب کسی دبائو کا شکار ہوئے ہیں۔
میں دبائو سے انکار نہیں کررہا، یہ اپنی جگہ ہو گا۔
یہ مگر حقیقت ہے کہ نو مئی کو جو کچھ کیا گیا، اس کا کوئی دفاع نہیں بنتا، اس کا ساتھ دینا بہت مشکل ہے اور بہت سے لوگوں کے لئے طبعاً، مزاجاً اتنے جارحانہ اور اینٹی آرمی رویے کے ساتھ چلنا ممکن نہیں۔
یہ بات تحریک انصاف ، ان کے کارکنوں اور حامیوں کو سمجھنا چاہیے ۔
یہ بات پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت نے سمجھی اور پھر طریقے سے مشکل وقت گزارے، اپنے کارکنوں کو مصیبت اور تکلیف میں نہیں ڈالا۔ سیاست کی، الیکشن ہارے، اپوزیشن میں بھی بیٹھے، مگر مین سٹریم میں ہی رہے۔ مین سٹریم پالیٹکس سے آئوٹ نہیں ہوئے، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پانچ سات دس برس بعد انہیں حکومتیں پھر سے مل گئیں۔
تحریک انصاف کی اپنی پالیسی، اپنی سوچ اور کارکنوں کا اپنا مزاج ہے۔ وہ ٹیسٹ میچ کرکٹ پر تو یقین رکھتے ہی نہیں، ٹی ٹوئنٹی بھی انہیں پسند نہیں، وہ دس اوورز کی ٹی ٹین کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں یا پھر وہی گلی محلے میں کھییلی جانے والی چھ چھ اوورز کی کرکٹ ۔
ان کی پارٹی، ان کی مرضی، ان کی سیاست۔ البتہ خان صاحب کا کوئی ہمدرد ہے تو انہیں مشکل ، کٹھن وقت طریقے سے، حکمت سے نکال لینے کا مشورہ دے۔
گرفتاری، جیل جانے سے بھی ان کے لئے امید ختم نہیں ہوجائے گی۔ سیاست میں راستے پھر سے نکل آتے ہیں۔
حرف آخر
کہا جاتا ہے کہ بڑے میاں صاحب اپنے ساتھیوں کو سمجھا رہے ہیں کہ عمران خان اب پنڈی والوں کا مسئلہ ہے ہمارا نہیں۔ یہی وہ اور پی ڈی ایم قیادت چاہتی تھی کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ آمنے سامنے آ جائے۔ بدقسمتی سے ایسا ہوگیا ہے۔ اس میں دونوں طرف کی غلطیاں ہوں گی، مگر نقصان بہرحال عمران خان اور تحریک انصاف کا ہو گا تو اس کی زمہ داری ان پر زیادہ عائد ہوتی ہے۔
عمران خان کوشش کریں کہ کسی طرح یہ مساوات تبدیل ہو اور تحریک انصاف بمقابلہ پنڈی کے بجائے تحریک انصاف بمقابلہ پی ڈی ایم والا معاملہ بنے، اس میں پھر ان کے لئے موقعہ ہے کہ سیاسی بساط کسی بھی وقت الٹ دیں۔