By Imran Malik
Why does PDM want elections without Imran Khan? Will Punjab Assembly elections held in May? What’s the agenda of Shah Mehmood Qureshi?
پاکستان تحریک انصاف جہاں پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے حلقوں کیلیے ٹکٹوں کی تقسیم کا مشکل ترین مرحلہ طے کر چکی، اور جہاں ایک ایک حلقے میں کئی کئی امیدوار وہیں بہت سے حلقوں میں یہ بات بھی گردش کر رہی کے ‘الیکشن’ تو نہیں ہونگے، یہ الیکشن ناں تو مئی میں اور ناں ہی اکتوبر میں ہوتے نظر آرہے ہیں، نظریہ ضرورت کے تحت شاید الیکشن ایک سال اور آگے بڑھا دیے جائیں، پھر چاہے احتجاج ہو، انارکی پھیلے، آئین کی دھجیاں اڑیں، کسی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا چونکہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں ایسے ہی ہوتا آرہا ہے، دم چھلا جماعتیں جمہوریت کا راگ تو الاپتی ہیں لیکن ‘اس’ چھتری کے سائے تلے سب ایک ہیں، سب ایک ہیں! آمریت نے مختلف ادوار میں اپنا بھیانک سایہ ہمیشہ جمہوریت پر قائم رکھا ہے اور اس کیلیے جمہوریت پسند ہی اسکے آلہ کار بنتے ہیں
آپ موجودہ سیٹ اپ میں پیپلز پارٹی کا رول دیکھ لیں، عمران خان کو ہمیشہ بلاول بھٹو سیلیکٹڈ سیلیکٹڈ کا طعنہ دیتے رہے اور اب خود مہا سیلیکٹڈ وزیر خارجہ بن چکے ہیں، اور ‘انہیں’ کی چھتر چھایا اپنی وزارت چلا رہے، اور دنیا گھوم رہے، انکی کل کی پریس کانفرنس میں عدلیہ کو دھمکیاں ڈھکی چھپی نہیں، کل ہی فضل الرحمن کا کہنا کے ہم عدالتی فیصلے کو مانتے ہی نہیں تو الیکشن کیسے؟ ایک دن میں پی ڈی ایم کی دو جماعتوں کا عدالت پر برسنا کوئی معمول کی کاروائی نہیں، یہ جواب دیا گیا ہے کے چیف جسٹس کو سیکیوریٹی پر ‘بریفنگ’ کے باوجود اپنے موقف پر قائم ہیں، اور پھر اگلے ہی دن بلاول اور فضل الرحمن نے گھن گرج کی
ایک بات تو بہت واضح ہے، کے نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن اس پات پر متفق کے اگر الیکشن میں جانا ہے تو مائنس عمران خان جانا ہے، اسی کی ایک جھلک آپ نے کل کے پریسرز میں دیکھ لی، اور پھر مریم نواز کا سعودیہ سے ٹویٹ کے مزاکرات تو سیاسی جماعتوں سے کیے جاتے ہیں ناں کے دہشت گردوں و فتنہ بازوں سے، بلاول کا یہ کہنا کے ہم پی ٹی آئی سے گن پوائنٹ پر مزاکرات نہیں کر سکتے، اور مفتی اسد محمود کا پی ٹی آئی کو فارن فنڈڈ کہنا – یہ سب وہ سوچ ہے جسکو بیانیہ بنا کر آگے بڑھانے کی کوشش ہو رہی ہے، تمام حلقے پی ڈی ایم کیساتھ اس بیانیے پر یکسو ہیں، مسئلہ صرف یہ ہے کے اس پر عوامی حمایت ناں ہونے کے برابر ہے، اور یہی وہ ‘غم’ ہے جو تیرہ جماعتوں کے غیر فطری اتحاد کو کھائے جا رہا ہے
دوسری طرف انکی غیر مقبول پلاننگ یہ ہے کے پی ٹی آئی کے حصے بخرے کر دیے جائیں، اور پھر شاہ محمود قریشی کیساتھ پارٹی کو زندہ رکھا جائے، جس پر ذرائع کا کہنا ہے کے وہ متفق بھی ہیں، انکی دیرینہ خواہش بس یہ ہے کے کسی طریقے سے پنجاب کی وزارت اعلی کی پگ انکے چشم و چراغ زین قریشی کے سر ڈال دیجائے، جس پر ‘وہ’ اپنی تئیں کوشش کر رہے ہیں کے باقی اتحادیوں کو رام کر لیا جائے
لیکن کیا پی ٹی آئی مائینس خان زندہ رہ پائیگی، کیا شاہ محمود قریشی پارٹی ‘انکی’ بیساکھیوں کیساتھ چلا پائیں گے؟
پاکستان کی اکثریتی حلقوں کیلیے یہ ناصرف قابل قبول نہیں ہو گی بلکہ اس سوچ کو بھی کہیں پزیرائی نہیں ملیگی، پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ایسی کسی سوچ کو پنپنے بھی نہیں دینا چاہیے، اور جلد الیکشن کے ذریعے الجھے معاملات کو سلجھایا جا سکتا ہے