بشکریہ بی بی سی اردو
’میں نے کہا مجھے ہاتھ مت لگاؤ، میں خود قیدی وین میں بیٹھ جاؤں گی۔ اس پر پولیس والے نے جواب دیا کہ تم کون سا شریف لڑکی ہو۔ اگر شریف ہوتیں تو گھر سے نہ نکلتیں۔‘
عائشہ سلمان (فرضی نام) تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں ان کی جماعت کی جانب سے ہونے والے پرتشدد احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد گرفتار کی جانے والی خواتین میں شامل تھیں۔
نو مئی 2023 کو پیش آنے والے پرتشدد واقعات کے نتیجے میں ملک کے کئی شہروں میں سرکاری و نجی عمارتوں کے علاوہ عسکری املاک کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ اس احتجاج کے دوران متعدد افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی بھی ہوئے۔
اس جلاؤ گھیراؤ کے بعد سے تحریکِ انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ تاحال جاری ہے اور حراست میں لیے جانے والوں میں خواتین کی بھی قابلِ ذکر تعداد شامل ہے جبکہ پی ٹی آئی کے دعوے کے مطابق بڑی تعداد میں ایسے افراد بھی حراست میں لیے گئے جو تحریکِ انصاف کے کارکن یا ہمدرد تو تھے لیکن احتجاج کا حصہ نہیں تھے۔
اپنی گرفتاری کے بارے میں بات کرتے ہوئے عائشہ کا کہنا تھا ’جب عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو ہم لوگ احتجاج کرنے کے لیے باہر نکلے۔ ہم سب طالبعلم ہی تھے جو ایک چوک پر کھڑے احتجاج کر ہے تھے کہ ہمیں پتا چلا کہ ہمارے کچھ ساتھی آئی ایس آئی کے دفتر کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔ میں اور باقی سب لوگ بھی اس طرف چل پڑے۔ وہاں پہنچ کر ہم پرامن انداز میں پلے کارڈ لے کر کھڑے تھے کہ چند ہی منٹ بعد وہاں شیلنگ شروع ہو گئی اور ایک دم سے پولیس اور رینجرز والے ہماری طرف بھاگے۔ ہم سب وہاں سے دوسری طرف بھاگے تو پولیس والے کہنے لگے کہ اب بھاگ کیوں رہے ہو۔ واپس آؤ نا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’اس وقت وہاں صرف چیخوں اور گالیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ہمیں کچھ لڑکوں نے آ کر بتایا کہ ہمارے ساتھ جو دو لڑکیاں تھیں انھیں پولیس لے گئی ہے اس لیے آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں۔ ہم اپنے گھروں کو چلے گئے۔ وہ رات خاصی مشکل تھی اور دماغ میں آوازیں اور گالیاں گونج رہی تھیں۔ میں اس لیے بھی پریشان تھی کہ میری دوستوں کو پولیس لے گئی تھی۔‘
’اگلے دن تو ہم آئی ایس آئی کے دفتر کے باہر بھی نہیں گئے۔ عام سڑک پر آ کر کھڑے ہی ہوئے تھے کہ فوری طور پر پولیس، ایلیٹ فورس، رینجرز اور پتا نہیں کون کون وہاں آ گیا۔ ہم پر شیلنگ اور واٹر کینن کا استعمال شروع ہو گیا۔ کئی گھنٹے ہم گیس کھاتے رہے اور پھر وہیں سے گرفتار ہو گئے۔‘
عائشہ کا دعویٰ ہے کہ جہاں انھیں اور ان کی ایک ساتھی کو خواتین کے تھانے لے جایا گیا وہیں ان کی باقی دوستوں کو پولیس اہلکار عام تھانے میں لے گئے۔
ان کے بقول ’گرفتاری کے وقت ہم سب پر تشدد بھی کیا گیا۔ ڈنڈے مارے گئے۔ جب مجھے پولیس والے پکڑ رہے تھے تو میں نے انھیں کہا کہ مجھے ہاتھ نہیں لگاؤ، میں خود ساتھ چلتی ہوں تو کہا گیا کہ تم تو بے حیا لڑکی ہو۔ کون سا شریف لڑکی ہو۔‘
عائشہ کے مطابق ان کے لیے آنسو گیس سے ہونے والی تکلیف سے کہیں زیادہ تکلیف دہ وہ رویہ تھا جو گرفتاری کے وقت ان سے روا رکھا گیا۔
’شیلنگ اور واٹر کینن کی وجہ سے میرا منہ اور آنکھیں ابھی تک جلتی ہیں لیکن اس سے زیادہ تکلیف تو ان گالیوں کی ہے جو مجھے مسلسل دی گئیں۔ میری والدہ کا انتقال ہو چکا ہے۔ اگر وہ زندہ ہوتیں اور یہ سب دیکھتیں تو ویسے ہی مر جاتیں۔‘
عائشہ کو تو ایک دن کی حراست کے بعد ضمانت پر رہائی مل گئی لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد انھیں جہاں اپنے آس پاس رہنے والوں کی طرف سے برے سلوک کا سامنا رہا ہے وہیں وہ یہ دعویٰ بھی کرتی ہیں کہ پولیس نے بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔
’ہمارے خاندان میں آج تک کوئی جیل نہیں گیا تھا کبھی۔ میں پہلی ہوں اور اوپر سے لڑکی ہوں۔ اسی بات پر میرے ارد گرد والے لوگوں نے میرا جینا حرام کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ رہائی کے بعد پولیس پھر سے ہماری تلاش کر رہی ہے۔‘
انھوں نے الزام لگایا کہ ’ہم جتنی لڑکیاں تھیں سب کی فوٹوز اور ویڈیو جا جا کر ہمارے محلے والوں کو دے رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ آپ نے ان کو دیکھا ہے، اگر یہ لڑکیاں نظر آئیں تو فوراً پولیس کو بتائیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اب مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں پتا نہیں کتنی بدکردار لڑکی ہوں۔ دل کرتا ہے کہ یا تو میں مر جاؤں یا پھر واقعی ہمیں آزادی مل جائے۔ جس کے بعد کوئی ہمیں احتجاج کرنے پر بےحیا نہ کہے۔ ہمارے ملک میں قانون کی بالادستی ہو۔ کوئی ایسا نہ ہو جو سسٹم سے اوپر ہو۔ میرے لیے تو یہ آزادی ہے۔‘
’کئی دن ہو گئے ہیں ہم گھر سے بےگھر ہیں‘
عائشہ سلمان تو احتجاج کے بعد گرفتار کر لی گئیں لیکن صبا (فرضی نام) جیسی تحریکِ انصاف کی کئی کارکنان نو مئی کے مظاہروں کے بعد شروع ہونے والی گرفتاریوں کی وجہ سے روپوش ہونے پر مجبور ہوئیں۔
دو بچوں کی والدہ صبا کئی برس سے پی ٹی آئی سے منسلک ہیں اور جماعت کے جلسوں، جلوسوں اور احتجاج کا حصہ رہی ہیں۔ نو مئی کو بھی وہ احتجاجی مظاہروں میں شامل تھیں تاہم اس کے فوراً بعد ہی وہ اپنے اہلخانہ کو لے کر شہر سے چلی گئیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے ہم پر زمین ہی تنگ ہو گئی ہو۔ ہماری زیادہ تر خواتین یا تو پکڑی گئی ہیں یا پھر روپوش ہیں۔ ہم گھر سے بے گھر ہو گئے ہیں۔ بچے سکول نہیں جا سکتے۔ جب ہم نکلے تو اتنا وقت نہیں تھا کہ کپڑے بھی اٹھا سکتے۔‘
’گھر سے نکلنے کے بعد سب لوگوں سے رابطہ کیا کہ کوئی ہمیں رکھ لے لیکن افسوس ہوا کہ جن لوگوں کے بارے میں لگتا تھا کہ وہ ہماری مدد کریں گے انھوں نے صاف جواب دے دیا کہ آپ ہمارے پاس مت آئیں اور نہ ہی ہمارے لیے مشکلات کھڑی کریں۔ دوسری جانب بہت سے ایسے لوگ تھے جن میں ایسے عام کارکن شامل ہیں جنھیں ہم نے کبھی پوچھا بھی نہیں تھا انھوں نے ہمارا ساتھ دیا اور مدد کی۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس اب بھی ان کی تلاش میں ہے ’میرے گھر دن میں کئی مرتبہ سی آئی اے والے آتے ہیں، ملازم سے پوچھتے ہیں جبکہ پولیس کبھی ہمارے کسی رشتہ داروں کے گھر جاتی ہے تو کبھی کسی دوست کے گھر۔ اب تو خوف آتا ہے کہ کہیں وہ لوگ ہمیں ڈھونڈتےہوئے یہاں بھی نہ پہنچ جائیں۔‘