دو چار روز قبل فاکس نیوز پر ٹکر کارلسن کو سنا۔ بہت پریشان حالت میں فرما رہے تھے کہ مختلف ممالک کی جانب سے ڈالر سے جان چھڑانے کا عمل اتنا تیز اور وسیع ہے کہ پاکستان اور فرانس بھی اس میں شامل ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ میں کہتا ہوں، نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا میں جہاں جہاں بھی ڈالر پڑا ہے اس کا ایک ایک نوٹ واپس امریکہ آجائے گا جس سے ڈالر کی قیمت زمین پر جا گرے گی۔ اور اس کا حال وہی ہوجائے گا جو 100سال قبل جرمن کرنسی کا ہوا تھا۔ امریکہ کو ناقابل تصور غربت کا سامنا ہوگا۔
ہمیں یاد ہے بارہ تیرہ برس قبل جب ہم دنیا ٹی وی کے پروگرام “حسبِ حال” سے وابستہ تھے تو ایک ریسرچ بیسڈ سیگمنٹ اس موضوع پر بھی تیار کیا تھا کہ چائنا بہت غیر معمولی مقدار میں سونا خرید رہا ہے۔ سیگمنٹ میں اس حوالے سے اس وقت کے اعداد و شمار بھی شامل کئے تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ڈالر کو مزہ چکھانے کے لئے چین کب سے تیاریاں کر رہا تھا۔ ڈالر سے جان چھڑانے کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ ہر ملک کی کرنسی ایک بار پھر اس کے سونے کے ذخائر سے وابستہ ہوجائے گی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ دو سال بعد صورتحال یہ ہوگی کہ دنیا کے اکثر ممالک باہمی تجارت میں ڈالر سے جان چھڑا چکے ہوں گے۔ لیکن ان دنوں امریکہ کو جس تواتر سے سرپرائز مل رہے ہیں ان سے یہی لگتا ہے کہ کسی بھی وقت اچانک سامنے آنے والا بڑا سرپرائز راتوں رات بھی ڈالر کو زمین پر پٹخ سکتا ہے۔ مثلاً یہی دیکھ لیجئے کہ امریکہ نے پچھلے ہفتے بیک ڈور سے سعودی عرب کو یہ دھمکی دی کہ اگر تیل کی پیداوار میں اوپیک پلس نے مزید کمی کی تو ہم روس کی طرح سعودی تیل کی قیمت پر بھی کیپ لگا دیں گے۔ اس کا جواب اوپیک نے تیل کی پیداوار میں بڑی کمی کی صورت میں دیدیا ہے۔
ابھی تو محض ممالک یہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ ہم ڈالر میں ڈیل بند کر رہے ہیں۔ مگر جانتے ہیں ڈالر کی یہ اجارہ داری ہے کس کے دم پر؟ سعودی تیل کے دم پر۔ 70ء کی دھائی کے آغاز میں جب امریکہ کے سونے کے ذخائر دوسری بار کم ہونے لگے تو انہوں نے ڈالر کی سونے سے وابستگی ختم کرکے سعودی تیل سے کردی۔ یوں پہلے صرف تیل کی تجارت ڈالر میں شروع ہوئی، پھر رفتہ رفتہ ڈالر عالمی کرنسی بن گیا اور پوری دنیا کی ہر طرح کی تجارت ڈالر میں ہونے لگی۔ اس سے امریکہ کے ہاتھ ایک ہتھیار آگیا۔ جو بھی ملک امریکہ کی اطاعت سے انکار کرتا یہ اس پر پابندیاں لگا دیتا۔ ڈالر کا ہیڈکوارٹر نیویارک ہے۔ پوری دنیا کے بینکوں میں گردش کرنے والا ڈالر جس سسٹم میں گردش کرتا ہے ہے اسے “سویفٹ” کہتے ہیں جس کا مرکز نیویارک ہے۔ جب امریکہ کسی ملک پر تجارتی پابندیاں لگاتا ہے تو درحقیقت اسے اس سویفٹ سسٹم سے نکال پھینکتا ہے۔
یوں وہ ملک ڈالر میں تجارت ہی نہیں کر پاتا۔ امریکہ کی یہ عالمی آمریت جب تک پابندیوں کی صورت عراق، ایران، شمالی کوریا اور وینزویلا جیسے کمزور ممالک کو نشانہ بناتی رہی کوئی بغاووت نہ ہوئی۔ مگر روس جیسے بڑے ملک پر لگائی گئی پابندیاں اس کے لئے مہلک ثابت ہوئیں۔ ان پابندیوں میں امریکہ اور یورپ نے روس کو صرف سویفٹ سسٹم سے آؤٹ نہیں کیا بلکہ مغربی ملکوں میں پڑے روسی ڈالر بھی ضبط کر لئے۔ اس حوالے سے یورپی یونین نے بھی بڑے فخر سے کہا تھا کہ ہمارے بینکوں میں روس کے 300 ارب ڈالر تھے جو ہم نے ضبط کر لئے۔ یہ الگ بات کہ بعد میں یہ سر کھجاتے پائے گئے کہ ہمارے ہاں تو روس کے300 ارب ڈالر پڑے تھے، یہ اچانک 24 ارب کیسے ہوگئے؟ اگر غور کیجئے تو امریکہ اور یورپ کا یہ عمل “بینک ڈکیتی” کے سوا کچھ نہ تھا۔ امریکہ اور اس کی مغربی اتحادی صرف بینک ڈکیتی تک ہی نہ رہے بلکہ جو روسی ان دنوں اپنی لگژری بوٹس پر یورپ میں موجود تھے ان کی بوٹس بھی ضبط کرلی گئیں۔ اسے آپ بڑے درجے کی سمندری کار چوری بھی کہہ سکتے ہیں۔
اس غنڈہ گردی کا اثر یہ ہوا کہ آنِ واحد میں پوری دنیا اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ اگر یہ روس کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے تو کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ ڈالر ہے امریکی کرنسی، ہم اسے اپنے بینک اکاؤنٹس میں رکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے ہیں۔ لیکن درحقیقت تو یہ امریکہ کے ہی کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ وہ جب چاہے یہ دولت ہم سے لوٹ سکتا ہے۔ چنانچہ سب نے ڈالر سے جان چھڑانے کی ٹھان لی۔ ان پریشان ممالک کی مدد کو چین اور روس آگئے۔ انہوں نے آفر دیدی کہ آپ چاہیں تو چائنیز کرنسی میں تجارت کر سکتے ہیں، اور چاہیں تو اپنی کرنسی میں بھی کرسکتے ہیں۔ اور یوں شروع ہوگیا ڈالر کے زوال کا سفر جو دن بدن تیز ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ڈالر اگر اس وقت اپنے قدموں پر کھڑا ہے تو صرف اس لئے کہ سعودیوں نے ابھی اس کی وابستگی اپنے تیل سے ختم نہیں کی۔ وہ یہ اس لئے نہیں کر رہے کہ اس اقدام سے پوری دنیا کی معیشتیں زمیں بوس ہوجائیں گی۔ لیکن فرض کیجئے امریکہ سعودیوں سے پنگے بازی سے باز نہ آئے اور کوئی ایسی حماقت کرنے کا فیصلہ کرلے جس سے سعودی شاہی خاندان کو اپنا وجود خطرے میں نظر آئے تو کیا وہ یہ ٹرمپ کارڈ استعمال نہیں کرے گا؟
سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ کو اس صورتحال سے کوئی پریشانی ہے؟ جی بالکل ہے۔ جاننا چاہیں گے کہ کیا پریشانی ہے؟ سینیٹر مارکو روبیو کی زبانی سن لیجئے۔ فاکس نیوز سے ہی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ پانچ سال بعد صورتحال یہ ہوگی کہ ہم دنیا کے کسی بھی ملک پر پابندیاں نہیں لگا سکیں گے۔ اگر ایک امریکی سینیٹر کا موجودہ صورتحال کے حوالے سے کل شعور یہ ہے کہ ڈی ڈالرائزیشن کے نتیجے میں امریکہ کو بس یہ نقصان ہوگا کہ وہ کسی ملک پر باندیاں لگانے کے قابل نہیں رہے گا تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے چند سال میں دنیا پر ان کی گرفت اس لئے کمزور ہوئی ہے کہ فراست ان کے ہاں سے کوچ کرچکی، پیچھے صرف تکبر رہ گیا ہے جو ان سے مزید حماقتیں سرزد کروائے گا۔
اگر صرف پچھلے ایک سال کی ہی صورتحال دیکھ لی جائے تو واضح ہوجائے گا کہ یہ خود امریکہ کے اپنے ہی اقدامات تھے جو اس کے گلے پڑ گئے۔ اور اب بھی اس کا چلن یہ ہے کہ قدم پیچھے کھینچنے کی بجائے مزید حماقتوں پر تلا بیٹھا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پولیٹیکو نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پچھلے پانچ ہفتوں سے امریکی انتظامیہ سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے کہ چائنیز صدر شی جن پنگ امریکی صدر کی کال رسیو کرلیں مگر اسے مسلسل ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شاید اسی لئے تائیوانی صدر کو امریکہ بلا کر گویا اپنی طرف سے چین پر دباؤ ڈالنے کی عظیم ترکیب لے آئے، مگر سوال یہ ہے کہ چائنیز اس امریکہ کے دباؤ میں کیوں آنے لگے جس کا دباؤ یوکرین میں روس کے آگے پھُررر ہوگیا؟
اس پوری صورتحال میں امریکہ کے لئے اصل پیغام ماسکو سے سامنے آیا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ہے کہ یوکرین تنازعے پر بات چیت نئے عالمی نظام پر بات چیت سے مشروط ہے۔ نئے عالمی نظام کا بھی سادہ ترین مطلب امریکی اجارہ داری کا خاتمہ ہی ہے۔ آپ ذرا چین اور روس کی حکمت عملی دیکھئے، ان دنوں ممالک میں سے امریکہ فی الحال صرف چین سے بات کرسکتا ہے مگر چائنیز صدر فون رسیو کرنے سے انکاری ہیں۔ اور جس روس سے امریکہ بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں اس کا وزیر خارجہ نئے عالمی نظام کی شرط رکھ رہا ہے۔ گویا ماسکو سے آنے والی شرط مانی جائے گی تو بیجنگ میں فون رسیو ہوگا ورنہ
الوداع اے ڈالر الوداع !