ایلون مسک کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ٹیکنالوجی بنانے والے ممالک جوکہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے کنٹرول کیے جانے والے مسلح ڈرون بڑے پیمانے پر تیار کرنے کے قابل ہوں گے، ان کے درمیان صرف ’ڈرون جنگیں‘ہوں گی۔
اُنہوں نے لندن میں منعقد ہونے والے ’وال اسٹریٹ جرنل کے سی ای او کونسل سمٹ‘ سے ورچوئلی بات کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ بھی ہم کر رہے ہیں اس کے لیے آرٹیفیشل انٹیلیجنس ضروری نہیں ہے، یہ ٹیکنالوجی بالکل’دو دھاری تلوار‘ جیسی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اگر آپ کے پاس کوئی جن ہے جو آپ کو کچھ بھی دے سکتا ہے، آپ کو ایک خطرہ پیش کرتا ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ دنیا بھر کی حکومتوں سے توقع ہے کہ وہ کسی بھی چیز سے پہلے ہتھیار تیار کرنے کے لیے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال کریں۔
ایلون مسک نے کہا کہ لہٰذا صرف میدانِ جنگ میں زیادہ جدید ہتھیاروں کا ہونا جو کسی بھی انسان سے زیادہ تیزی سے رد عمل کا اظہار کر سکتے ہوں صرف آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے ممکن ہوسکے گا۔
اُنہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک یا کم از کم ڈرون ٹیکنالوجی کی صلاحیت رکھنے والے ممالک کے درمیان مستقبل میں ہونے والی جنگیں ’ڈرون جنگیں‘ ہوں گی۔
یاد رہے کہ مارچ میں ایلون مسک ان ٹیک لیڈرز اور سی ای اوز میں شامل تھے جنہوں نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے انسانیت اور تہذیب کو لاحق خطرات کی وجہ سے اس بات پر زور دیا تھا کہ اس جدید ٹیکنالوجی کو ترقی دینے میں جلد بازی سے کام نہ لیا جائے۔