یہ بھی تو سیدھا سادہ قتل ہے ، رات میں اور مسیب شیخوپورہ سے لاہور آ رہے تھے ، ایک جگہ حادثہ ہوا تھا ، مزاجاً رک گئے ۔ دو موٹر سائیکل والے آپس میں ٹکرائے تھے ۔ ایک بے ہوش پڑا تھا اور کسی صورت ہوش میں نہیں آ رہا تھا ۔ لوگ اس کے موبائل سے اس کا انگوٹھا لگا کر کھولنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ دوسرا شخص خون میں لت پت مگر ہوش میں بیٹھا ہوا تھا اور خود اپنے گھر رابطے کی کوشش کر رہا تھا ، اس کا بازو ٹوٹ چکا تھا ۔
قصہ مختصر ، دونوں کو قریبی اسپتال پہنچانے کا انتظام کیا ، ان کی موٹر سائیکلوں کو قریبی فیکٹری میں کھڑا کیا اور سب سے رابطہ نمبر لے کر رخصت ہوا ۔۔
ٹوٹے بازو والے شخص نے کراہتے ہوئے بتایا کہ میں سیدھا آ رہا تھا کہ یہ بےہوش شخص اپنی موٹر سائیکل پر سڑک عبور کرتے سامنے آ گیا اور ہم ٹکرا گئے ۔۔ یاد رہے کہ وہاں سڑک عبور کرنے کا راستہ باضابطہ بنا ہوا تھا ۔۔
رات گئے لواحقین سے رابطہ ہوا تو انہوں نے تسلیم کیا کہ جس کا بازو ٹوٹا گو وہ تیز اور سیدھا آ رہا تھا لیکن اس کی لائٹ نہیں تھی ۔۔۔۔ دوسری غلطی اس کی یہ تھی کہ بنا لائٹ کے آنے کے باوجود وہ بہت تیز تھا اور درمیان والی گرین بیلٹ کے ساتھ یعنی بالکل گاڑیوں کی لائن میں چل رہا تھا ۔۔۔ اس پر میں نے اس کے عزیز سے بس اتنا ہی کہا کہ اگر دوسرا بندہ ہوش میں نہیں آتا تو کیا یہ سیدھا سادہ قتل نہیں ہے ؟؟
وہ تسلیم کر رہا تھا لیکن کیا اس تسلیم کرنے سے رخصت ہوئے واپس آ جاتے ہیں ؟
پاکستان میں حادثات کے بڑے اسباب میں ،تیز رفتاری ، ون وے کی خلاف ورزی ، بنا لائٹ گاڑی چلانا ، سرخ ہونے پر اشارے کو عبور کرنا ہیں ۔۔۔
ان اسباب سے آپ خود سے زیادہ دوسرے کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں ۔۔ اور اس جنگل میں قائم حکومتی مجرم اس کے پورے ذمے دار ہیں ۔۔ لاہور میں ای چالان کا سلسلہ کسی حد تک ناکامیاب ہو چکا ہے صرف مقامی انتظامیہ کی نااہلی کے باعث ۔۔۔۔ جانے کیمرے خراب ہیں یا کیا سبب ، لوگ پورے اطمینان سے اشارے کاٹتے ہیں اور نہ ان کو ضمیر تنگ کرتا ہے نہ قانون ۔۔۔۔بیسیوں بار دیکھا کہ وکلا اور پولیس کے لوگ اشارہ کاٹتے ہیں ، اس کا سبب ہے کہ ہمارے قانون کے رکھوالے خود ہی قانون کو بازیچہ اطفال سمجھتے ہیں ۔سو عام آدمی بھی قانون کو ایک بےکار شے جانتا ہے ۔
اشارہ کاٹنے کا چالان پاکستان میں چند سو روپے ہے جبکہ یہی چالان سعودی عرب میں تین ہزار ریال ہےجو پاکستانی رقم میں قریب اڑھائی لاکھ روپے بنتا ہے نتیجے میں وہاں پر سرخ بتی پاس آنے پر انسان کی دل کی دھڑکن ایک بار ضرور اتھل پتھل ہوتی ہے اور وہ کوئی ایڈوینچر کرنے باز رہتا ہے ۔۔
ون وے کی خلاف ورزی اس سے بڑا جرم ہے جو کسی کو بھی ہلاکت میں ڈال سکتا ہے ۔میرے ایک ملنے والےایک تعلیمی ادارے کے سربراہ، انتہائی خوبصورت جوان اپنے معصوم بھتیجے کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار جا رہے تھے کہ ایک ٹرک پورے کا پورا ون وے کاٹتا چلا آیا اور رات کی اندھیرے میں اپنی اس حرکت کو چھپانے کے لیے روشنی بھی بند کر رکھی تھی ۔۔افسوس افسوس دو افراد جان کی بازی ہار گئے ۔۔۔
صرف ایک مہینے میں کتنے ہی افراد سے ان حادثات پر تعزیت کر چکا ہوں ۔۔کچھ فیس بک کے سبب اطلاعات آسان ہیں اور کچھ حادثات کی شرح میں اضافے کے سبب ، اب ایسے واقعات مسلسل ہو رہے ہیں ۔۔ اللہ تعالیٰ سب کو عافیت میں رکھے لیکن ہمیں بھی اپنی روش پر غور کرنا چاہیے ۔۔ حکومت نے ہیلمٹ پہننے کی سختی کی تو یار لوگ اسے ہیملٹ بیچنے کی سازش قرار دینے لگے ۔۔ او بھائی ! اگر ایسا بھی ہے تو حفاظت تو آپ کی ہی مقصود ہے ۔اس سے زیادہ جہالت کی کیا بات ہو گی کہ جن دنوں ہیلمٹ کی پابندی عائد کی گئی اور سختی کی گئی ان دنوں ایک شخص نے چالان پر مشتعل ہو کر اپنے موٹر سائیکل کو آگ لگا دی ۔۔۔ یہ تصویر خوب وائرل ہوئی اور بہت سے لوگ اس ” مظلوم” کے لیے روتے دیکھے گئے ۔۔۔ ایسا کسی عرب ملک میں یا یورپ میں ہوتا تو اس کو فساد اور نقص امن کے تحت جیل میں ڈالا جاتا ، لیکن ہمارے ہاں وہ مظلوم اور ہیرو تھا ۔۔۔۔
شائد ہم فطرتاً قانون شکن لوگ ہیں ، لیکن یاد رکھیں جو بھی آج بہت مہذب اقوام شمار کی جاتی ہیں ، سبھی ایسے تھے ۔۔۔۔لیکن قانون پر عملدرآمد اور ہر چھوٹے بڑے پر اس کی پاسداری نے انہیں مہذب اقوام بنا دیا ۔۔۔۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ ٹریفک حادثات میں کمی آئے تو ضروری ہے کہ ٹریفک کے قوانین کو انتہائی سخت کیا جائے ،جرمانے کافی زیادہ کیے جائیں ، ای چالان اس طرح ہو کہ خود ہی خود انسان کے نامہ اعمال میں جمع ہو جائے اور معافی کی کوئی صورت نہ ہو ۔۔۔ سب انسان بن جائیں گے
تحریر: ابوبکر قدوسی