فلمی دنیا کی شخصیات کے بے شمار راز آج عاشق چودھری کے ساتھ دفن ہوجائیں گے.
سنتوش، صبیحہ، محمدعلی سے دلیپ کمار اور نورجہاں، اکمل، سلطان راہی، نیلو، فردوس، انجمن سے صائمہ، ریما تک سب نے ان پر اعتماد کیا تو اس لیے کہ وہ راز کو راز رکھتے تھے، exclusive خبر کے شوق میں کبھی کسی کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی. ایک زمانے تک فلمی صنعت ایک فیملی کی طرح تھی اور چودھری صاحب اس کے ایک رکن تھے.
ایسا بھی ہوا کہ خبر اتنی پکی تھی کہ مشہور فلمی فن کاروں کے نکاح نامے پر خود بطورِ گواہ دستخط کیے لیکن “دولہا دلہن ” نے نہیں چاہا تو شادی کی خبر لیک نہیں کی(جو کسی بھی رپورٹر کیلئے بہت مشکل ہوتا ہے) صائمہ اور نور کے نکاح کا انہیں برسوں سے اچھی طرح علم تھا لیکن خبر بریک کی تو تب جب صائمہ نے کسی عدم تحفظ کے احساس کی وجہ سے انہیں خود کہا کہ یہ خبر دے دیں.
عاشق چودھری پچپن سال سے زیادہ “جنگ ” سے وابستہ رہے. لاہور سے اخبار نکلنے سے بہت پہلے وہ جنگ کراچی کے لاہور بیورو کے رکن تھے. جو شاید صرف دو صحافیوں سید فاروق احمد اور ان پر مشتمل تھا.
دلیپ کمار سے ان کا تعلق یوں تھا کہ دونوں کے بزرگ فروٹ کا کاروبار کرتے تھے اور آپس میں پرانے تعلقات تھے.
نورجہاں سے ان کی بے تکلفی تھی. میڈم نے صرف ایک بار کچھ سنائیں. وہ اس وقت جب انہیں پتہ چلا کہ (ان کی شدید علالت کی وجہ سے) جنگ والوں نے ان کی موت پر چھاپنے کیلئے ایک ضمیمہ تیار کرکے رکھا ہوا.
” گائے گی دنیا گیت میرے”
کی بہت موٹی سرخی والا یہ ضمیمہ اکبر عالم مرحوم نے تیار کیا ضمیمے کی کاپی بہت عرصہ فوٹو لائبریری کی میز پر شیشے کے نیچے رکھی دیکھتے رہے. ملکہ ترنم کا اس کے کافی عرصے بعد انتقال ہوا.