تحریر: عمران ملک
ورلڈ پریس فریڈم ڈے کے موقع پر اقوام متحدہ نے ‘رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز’ کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں کہا کے دنیا کے ہر خطے میں آزادی صحافت خطرے میں ہے، اور مسلسل حملوں کی زد میں ہے
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کے ‘ہماری آزادی کا انحصار، میڈیا کی آزادی کیساتھ جڑا ہے’ انکا مزید کہنا تھا کے میڈیا کی آزادی ہی جمہوریت اور انصاف کی بنیاد ہے
میڈیا تنظیم ‘آر ایس ایف’ کا کہنا تھا کے سن 2022 میں پچپن صحافی اور چار میڈیا ورکرز اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے
ان مشکل ترین حالات میں یونیسکو نے تین ایرانی خواتین صحافیوں، دو مرد صحافی اور ہیومن رائیٹس کارکن کو سن 2023 کے ورلڈ پریس فریڈم ایوارڈ کیلیے چنا ہے، اور یہ تمام حضرات ابھی بھی جیلوں میں بند ہیں
میڈیا تنظیم ‘آر ایس ایف’ کی رپورٹ کیمطابق جسمیں 180 ممالک کا احاطہ کیا گیا، کا کہنا ہے کے 31 ممالک میں میڈیا کیلیے حالات ‘خطرناک ترین’ ہیں، 42 ممالک میں ‘مشکل’، 55 ممالک میں ‘مسائل کا شکار’ اور 52 ممالک میں اچھے یا اطمینان بخش ہیں
ناروے مسلسل ساتویں دفعہ صحافیوں کیلیے بہترین ملک قرار پایا ہے اور دوسرے نمبر پر آئر لینڈ اور تیسرے نمبر پر ڈنمارک ہے
صحافیوں اور میڈیا ورکرز کیلیے سب سے بد ترین ممالک ایشیا سے ہیں، شمالی کوریا 180 ویں نمبر پر ہے، جہاں صحافی سانس بھی مشکل سے لیتے ہیں، اسکے بعد چائنہ کا 179 واں نمبر ہے، جہاں ہر صحافی سنسر کی زد میں رہتا ہے، اور 178 ویں نمبر پر ویت نام کا نمبر ہے، جہاں آزاد صحافی اور آزاد تجزیہ نگار ہر وقت ہٹ لسٹ پر ہوتے ہیں
اس رپورٹ میں پاکستان کے نامور صحافی ارشد شریف کا کہیں ذکر نہیں جو کینیا میں شہید ہوئے، اور اس پر ابھی کوئی تفصیلی رپورٹ منظر عام پر نہیں آسکی، چونکہ اب پاکستان کے زیادہ تر صحافی سیاستدانوں اور ایجنسیوں کے اندر موجود دوستوں کی خبروں کے سہارے چلتے ہیں لہذا تحقیق بیس صحافت پاکستان میں دم توڑ رہی ہے،
ہر کوئی اپنے ذرائع سے ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کرصحافت کر رہا، لہذا مورخ سب ‘چین’ ہی لکھ رہا، اینکرز اب پاکستان میں صحافت کو ہائی جیک کر چکے ہیں، کوئی اخبار مالک اب اینکر کی مرضی و منشا کیخلاف پالیسی نہیں بنا سکتا، پچھلے چند دنوں میں امریکہ میں سی این این اور فاکس نیوز سے بڑے بڑے طرم خان اینکرز کو قلم کی ایک جنبش پر ملازمتوں سے فارغ کر دیا گیا، لیکن پاکستان میں ایسا میڈیا ادارے سوچ بھی نہیں سکتے،
میڈیا میں تقسیم اتنی بڑھ چکی کے اب ہر پارٹی کے اینکرز نما ماوتھ پیس موجود، سیاسی جماعتیں ایک بیانیہ بناتی ہیں اور پھر اس پر یہ اینکرز نما صحافی من و عن عمل کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر پھیلاتے ہیں، پاکستانی میڈیا کو خطرہ باہر سے نہیں بلکہ اپنی اندر کی لڑائیوں سے ہے،
صحافت اب اس پیمانے پر پہنچ چکی ہے کے سینیئر ترین میڈیا اینکرز سالوں خبر چھپائے رکھتے ہیں اور جب کوئی بڑی شخصیت عہدے سے دستبردار ہوتی ہے تو ساتھ ہی ‘اندر کی خبر’ نئی انگڑائی لیکر میڈیا پر چھا جاتی ہے، میڈیا ورکرز کو پاکستان میں ہر مہینے تنخواہ لیٹ ملتی ہے تو دوسری طرف اینکرز ماہانہ ملینز کما رہے، اب تو اپنے پروگرامز میں بزنس شیئر بھی لینے لگے ہیں
لہذا ہمارا یہ مطالبہ ہے کے اینکرز کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ دس لاکھ اور میڈیا ورکرز کی کم از کم تنخواہ ایک لاکھ مقرر کیجائے