چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’انتخابات سے بچنے کی غرض سے ہمیں کوئی وجہ تلاش کرنے کے بجائے آئین کو ماننا چاہیے۔ یہ ہماری چوائس نہیں بلکہ فرض ہے۔‘چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ’ہو سکتا ہے آج سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کو نہ مانا جائے اور اس پر عمل نہ ہو، لیکن فیصلہ موجود رہے گا اور مستقبل میں ضرور اس پر عمل ہو گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سیاسی رہنما مذاکرات میں مصروف ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ آئین پاکستان کے ساتھ مخلص ہیں۔‘
’مذاکرات کا جو بھی فیصلہ نکلے، سپریم کورٹ کا فیصلہ اپنی جگہ موجود رہے گا۔‘چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ ’جو آئین پاکستان کی حمایت کرنا چاہتا ہے اسے سپریم کورٹ آف پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، نہ کہ کسی فردِ واحد کے ساتھ۔‘
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ آف پاکستان کسی فرد واحد کا نام نہیں، بلکہ یہ ادارہ ایک اتحاد کی صورت میں کام کرتا ہے۔‘
’میں سپریم کورٹ کا ایک رکن ہوں اور انفرادی طور پر ہمارا (ججوں کا) کوئی وجود نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلوں کو میرٹ پر ہونے کے باعث ہی اخلاقی اتھارٹی حاصل ہو سکتی ہے اور جب کسی فیصلے کے خلاف اپیل یا ریویو داخل نہیں کیا جائے تو اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’دستور پاکستان اور حلف کے مطابق آئین کا تحفظ، دفاع اور حفاظت ججوں کی ذمہ داری ہے اور وہ یہ فرض پوری ایمانداری کے ساتھ سرانجام دیتے ہیں۔‘
چیف جسٹس آف پاکستان کے مطابق ’ہمارے تمام فیصلوں کا آئین اور قانون کے مطابق ہونا ضروری ہے اور ایسا ہونے کی صورت میں ہی فیصلوں کو اخلاقی اتھارٹی حاصل ہوتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’کیس کے میرٹ کے مطابق ہونے کی صورت میں فیصلوں میں اخلاقی اتھارٹی پیدا ہوتی ہے۔ بصورت دیگر 1955 کے تمیز الدین کیس جیسی صورت ہال بن جاتی ہے، جس میں ایک واحد جج جسٹس کارنیلئس نے اکثریت کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔‘
’وہ فیصلہ آج تک محفوظ ہے ایک مثال کے طور پر کیونکہ وہ کیس کے میرٹ کے مطابق تھا۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’جج جب بھی تیکنیکی نقاط میں الجھتے ہیں تو فوکس کسی دوسری طرف چلا جاتا ہے۔ ایسا صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دنیا بھر میں ایسے فیصلے کو کمزور سمجھا جاتا ہے جن میں اصل مدعا کو بھول دیا جائے۔‘