کینسر سے لڑتے لڑتے ڈاکٹر سیمی جمالی ہفتے کی شام کراچی میں وفات پا گئیں، وہ جناح ہسپتال کے شعبہ ایمرجنسی کی سربراہ اور بعد میں اسی ہسپتال کی ڈائریکٹر کے طور پر ریٹائر ہوئیں، وہ ان ڈاکٹروں میں سے تھیں جنھوں نے زندگی میں کبھی پرائیوٹ پریکٹس نہیں کی۔
ایمرجنسی کے شعبے کو صحت کے دیگر شعبوں کے مقابلے میں میدان جنگ سمجھا جاتا ہے۔ سیمی جمالی نے اپنے کیریئر کے 33 سال اس لڑائی میں گزارے، انھوں نے پاکستان کے اس ہسپتال میں بم دھماکوں، خودکش بم حملوں، ٹارگٹ کلنگز، ہوائی حادثات سمیت تمام بڑے حادثات و واقعات کا سامنا کیا۔
ڈاکٹر سیمی جمالی کہتی تھیں کہ میں تو چھپکلی سے ڈرتی تھی مگر بعد کی زندگی میں 33 برس لاشوں اور زخمیوں میں کھڑی رہی۔
انھوں نے 2006 میں نشتر پارک میں 12 ربیع الاول کے جلسے میں ہونے والے بم دھماکے میں پہلی بار کسی خودکش بمبار کا سر دیکھا۔
وہ بتاتی تھیں کہ ایک لڑکا اپنے قمیض میں کوئی چیز لپیٹ کر آیا تھا اور پوچھ رہا تھا کہ اسے پولیس سے ملنا ہے۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیوں ملنا ہے؟
اس کے بعد ایک اے ایس آئی کو بلایا اور جب اس شرٹ کو ہٹایا گیا تو اندر انسانی سر تھا اس واقعے کے بعد وہ کئی راتوں تک سو نہیں سکی تھیں۔
دہشت گردی کے علاوہ 2015 میں جب کراچی ہیٹ ویو کی لپیٹ میں آگیا اور کئی درجن لوگ جان سے گئے یا جب کورونا وائرس نے پر پھیلائے تو سیمی جمالی نے جناح ہسپتال کے شعبہ حادثات میں اپنے فرائض سر انجام دیے۔
مقامی مخیر حضرات کی وجہ سے انھیں عطیات ملے اور ایمرجنسی کے وارڈ کو اپ گریڈ کیا گیا۔
کسی بھی بڑے واقعے کے بعد کبھی انھیں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی کیونکہ وہ وہیں موجود ہوتیں۔
ڈاکٹر سیمی جمالی کی پیدائش لاہور میں ہوئی۔ ان کے والد غلام اللہ دین محمد میمن بیوروکریٹ تھے، انھوں نے اپنی دیگر دو بہنوں کے ہمراہ لاہور میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ابھی محض چھ برس کی تھیں تو والدہ کا انتقال ہو گیا اور ان کا خاندان کراچی منتقل ہو گیا جہاں ان کی پرورش نانی نے کی۔
ڈاکٹر سیمی جمالی کہتی تھیں کہ ان کی والدہ میڈیکل سٹوڈنٹ تھیں، ان کی شادی ہو گئی اور پھر بچے جس کی وجہ سے وہ ڈاکٹر نہیں بن پائیں تھیں لیکن ان کا خواب تھا کہ ان کی بیٹیاں ڈاکٹر بنیں لہذا تین میں سے دو بہنوں نے آگے جا کر ایم بی بی ایس کیا۔
سیمی جمالی نے نوابشاہ میں پیپلز میڈیکل کالج سے 1986 میں ایم بی بی ایس کیا جس کے بعد انھوں نے کراچی سول ہسپتال میں ہاؤس جاب کی۔
انھوں نے بتایا تھا کہ انھیں این آئی سی وی ڈی میں ملازمت مل گئی اور پھر کچھ عرصے کے بعد وہ آر ایم او بن گئیں۔
ان ہی دنوں میں آغا خان ہسپتال اور جناح ہسپتال میں ملازمتیں آئیں اور وہ دونوں کے امتحانات میں پاس ہو گئیں جبکہ ان کے پاس این آئی سی وی ڈی کا آپشن پہلے سے موجود تھا تاہم والد کا کہنا تھا کہ انھیں سرکاری ملازمت اختیار کرنی چاہیئے ورنہ مقصد فوت ہوجائے گا۔
انھوں نے جناح ہسپتال کو جوائن کیا اور ایمرجنسی کے شعبے سے وابستہ ہو گئیں۔
وہ بتاتی تھیں کہ ان دنوں کراچی ایسا نہیں تھا۔۔۔ پرامن اور صاف ستھرا تھا اور اتنے ہنگامی حالات کا شکار لوگ نہیں ہوتے تھے لیکن بعد میں یہ شہر بدل گیا اور انھوں نے وہ حالات دیکھے جس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
ڈاکٹر سیمی جمالی نے تھائی لینڈ سے پرائمری ہیلتھ کیئر مینجمنٹ میں ماسٹرز اور جان ہاپکن یونیورسٹی امریکہ سے ایمرجنسی کیئر میں پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلوشپ مکمل کی تھی۔
پاکستان کے اس سب سے بڑے ایمرجنسی شعبے کی انچارج رہنے والی ڈاکٹر سیمی جمالی کی پروفشینل زندگی کسی ایکشن اور سنسنی خیز ہالی ووڈ فلم جیسی لگتی ہے جس میں وہ کئی بار خود نشانہ بنتے بنتے بچیں۔
وہ بتاتی تھیں کہ 5 فروری 2010 کو نرسری کے قریب شیعہ زائرین کی بس کو نشانہ بنایا گیا۔ ایدھی اور چھیپا ایمبولینسوں میں زخمیوں کو جناح ہسپتال لایا گیا تو وہ گیٹ پر ہی موجود تھیں، اسی دوران شیعہ علما بھی پہنچ گئے وہ انھیں اندر جانے کا کہہ رہی تھیں کہ کچھ ہو نہ جائے اور اسی دوران دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں وہ زور سے گرئیں اور بے ہوش ہو گئیں۔
اس دھماکے کے نتیجے میں 13 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ ایک اور بم کو ناکارہ بنایا گیا تھا۔
انھوں نے بتایا تھا کہ وہ حادثات سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ تھیں مگر شعبہ حادثات میں کسی آفت سے نمٹنے کے لیے وہاں کوئی تیار نہ تھا۔۔۔ جو دوسرا بم برآمد ہوا اگر وہ پھٹ جاتا تو یہ پورا ہسپتال منہدم ہوجاتا۔
ڈاکٹر سیمی جمالی کے خاوند ڈاکٹر اے آر جمالی کراچی کے مشہور آرتھوپیڈک سرجن ہیں، انکے دو بیٹے ہیں جنکے نام بابر جمالی اور عمر جمالی ہیں-
Courtesy: BBC Urdu