عمران خان سیاسی میچ جیتنے کے قریب تھے لیکن ان سے تین بڑی غلطیاں ہوئیں جس کے بعد ان کی کامیابی مشکوک ہو گئی ہے۔ خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ۔۔۔
سب سے بڑی غلطی اس وقت ہوئی جب مذاکرات کے نتیجے میں انہیں انتخابات مل رہے تھے۔ مذاکرات کے بعد پی ٹی آئی کے وفد کے چہرے بتا رہے تھے کہ وہ حکومت کی تجاویز سے اتفاق کرنا چاہتے ہیں لیکن عمران خان نے انہیں ناکامی کا اعلان کرنے کا کہہ دیا ہے۔
عمران خان کے اس فیصلے نے پی ٹی آئی کی دوسرے درجے کی قیادت کو سخت مایوس کیا۔ فواد چوہدری صرف جیل کے ڈر سے خاموش نہیں بیٹھ گئے بلکہ اس کے پیچھے وہ مایوسی ہے جو عمران خان کے غلط فیصلوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔
عمران خان نے دوسری بڑی غلطی گرفتاری کے بعد رہائی کے وقت کی۔ عدلیہ کے جج بار بار انہیں کہتے رہے کہ وہ توڑ پھوڑ کی مذمت کریں لیکن وہ گول مول جواب دیتے رہے۔
اگر وہ اس وقت مذمت کر دیتے تو ان کے خلاف ریاستی قوت استعمال کرنے کا جواز ختم ہو جاتا۔ جس عدلیہ نے انہیں رہا کرایا تھا اسے بھی مضبوطی مل جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ اب مذمت کر رہے ہیں لیکن انہوں نے بہت تاخیر کر دی ہے۔ سیاست میں ٹائمنگ کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔
ان کی تیسری اور سب سے بڑی غلطی وہ خطاب تھا جس میں انہوں نے نیب چئیرمین اور اس کے ہینڈلرز کو بے غیرت اور دیگر القابات سے نوازا۔۔ ان کی عورتوں کے متعلق بھی سخت باتیں کر دی تھیں۔ انہیں غصہ تھا کہ ان کی اہلیہ کو کیوں نیب کیس میں ملوث کیا جا رہا ہے۔
سنا ہے کہ فواد چوہدری نے بھی کسی جگہ ایسی بات کی ہے کہ ہم یہاں جیلیں بھگت رہے ہیں اور عمران خان کو اپنی بیوی کی پڑی ہوئی ہے۔
لیکن اس خطاب کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہوا کہ سپریم کورٹ بھی ان کی حمایت سے پیچھے ہٹ گئی۔ حتیٰ کہ اسٹیبلشمنٹ میں بھی عمران خان کے جو حمایتی موجود تھے، وہ بھی کمزور پڑ گئے۔
جس وقت فضل الرحمان نے سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دیا ہوا تھا، اس وقت چیف جسٹس نے سماعت کے دوران زبان پر قابو رکھنے والی ایک بات کی تھی۔ وہ دراصل عمران خان سے مخاطب تھے۔
ان کے اس ایک فقرے میں شکوہ اور مایوسی دونوں شامل تھے۔ اس سماعت کے بعد چیف جسٹس نے اگلی سماعت کی تاریخ بھی اگلے ہفتے کی دے دی۔ یہ بھی ان کی جانب سے ناراضی کا اظہار تھا۔
ان غلطیوں کا نتیجہ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ ٹی وی پر ان کے حق میں بات کرنے پر پابندی عائد ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کے حق میں لکھنے والے اٹھائے جا رہے ہیں۔ ہزاروں نوجوان جیلوں میں پڑے ہیں۔ اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی ناممکن بنانے کے اقدامات ہو رہے ہیں۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی بچی کھچی قوت بچا کر رکھی جائے اور اسے انتخابات کے وقت استعمال کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر بھی احتیاط کریں کیونکہ انتخابات قریب ہیں، اس وقت آپ لوگوں کا جیل سے باہر ہونا ضروری ہے۔
عمران خان کا رویہ مصالحانہ ہو چکا ہے، انہیں یہ رویہ مستقل برقرار رکھنا چاہیئے۔ انہیں پوری کوشش کرنی چاہیئے کہ اگلے انتخابات کے وقت تک وہ جیل سے باہر رہیں۔ انہیں عوام کی بے پناہ اکثریت میسر ہے۔ اسے کوئی ختم نہیں کر سکتا لیکن ریاست الیکشن چرانا چاہے تو اس کے لیے کوئی مشکل نہیں۔