ہم ایک طبقاتی معاشرے میں رہتے ہیں، جس کی ہر پرت میں ضمنی طبقے بھی ہیں۔ جیسے ہر تھانہ مساوی نہیں ہوتا، ہر علاقے کا باٹا اور مکڈونلڈ ایک جیسی سروس نہیں دیتا، اور مختلف دفتروں میں ایک ہی گریڈ کے ڈرائیور یا کلرک ایک سی وقعت نہیں رکھتے، اُسی طرح صحافیوں میں بھی طبقات کی متعدد پرتیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں ہر سطح پر اور ہر حوالے سے تفریق موجود ہے۔
پہلا فرق ادارے کا ہے، اور ادارے میں اپنی حیثیت کا۔ آپ رائٹرز، وائس آف امیریکا یا بی بی سی وغیرہ کے نامہ نگار ہیں تو بس کمال ہو گیا۔ تنخواہ بھی اچھی اور یقینی، بیرون ملک دورے کا امکان بھی روشن۔ پاکستانی ادارے کے صحافی ہیں تو کئی طرح کے فرق ہیں۔ درجہ اول، درجہ دوم یا ڈمی اخبارات میں کام کرتے ہیں، انگلش یا پھر اردو میں کام کرتے ہیں، کس صفحے پر کام کرتے ہیں، ریگولر ہیں یا کنٹریکٹ پر، صبح کی شفٹ میں ہوتے ہیں یا شام کی۔
درجہ اول اخبارات مثلاً جنگ، نوائے وقت اور ڈان وغیرہ ہیں۔ ان کے اندر بھی لاہور اور کراچی والوں کی جو اہمیت ہے وہ فیصل آباد اور ملتان والوں کی نہیں۔ درجہ دوم اور سوم کے اخبارات آپ کبھی دیکھتے بھی نہیں۔ اور ڈمی اخبارات محض برائے نام نکلتے ہیں تاکہ ڈکلیریشن چلتا رہے، جیسے پاکستان ٹائمز۔
انگلش اخبارات کے صحافی اردو والوں کو کمتر انسان سمجھتے ہیں۔ ہر دو کی نظر میں رپورٹر کو تو خبر بھی فائل کرنا نہیں آتی۔ رپورٹر کے خیال میں نامہ نگار تو بالکل جاہل اور قبضہ مافیا کا کارندہ ہے۔ (چکوال کے نامہ نگار ریوڑیاں اور قصور کے نامہ نگار ایڈیٹر کو اندرسے وغیرہ بھی بھیجتے ہیں)۔ اخبارات میں صبح کی شفٹ بے کار ہو تی ہے، کام کا لوڈ نہیں ہوتا، لہٰذا رات کی شفٹ والے اُن سے خصوصی بے اعتنائی برتتے ہیں۔
گزشتہ پندرہ بیس سال کے دوران الیکٹرانک میڈیا نے تنخواہوں اور اہمیت میں ایک انقلاب بپا کیا۔ پریس کلب میں بلکہ باہر سڑک پر بھی گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں۔ اور پریس کلب عموماً وہی صحافی آنے لگے جو نوکری سے نکالے ہوئے ہوتے یا کسی سے ملنا ہوتا۔
اِس کے علاوہ کالم نگاروں، سب ایڈیٹروں، رپورٹروں اور فوٹوگرافرز میں بھی تفریق ہے۔ بہت سے کالم نگاروں اور رپورٹروں کی خبر کو سب ایڈیٹر ٹھیک کرتا ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ سب ایڈیٹر تو مزے کرتا ہے۔ تینوں فوٹوگرافرز کو ناکارہ سمجھتے ہیں۔
اب اگر آپ غریدہ فاروقی یا عاصمہ شیرازی نہیں، آپ جیو یا بول یا ایکسپریس میں کام نہیں کرتیں، آپ کی شکل سکرین پر زیادہ دیر نہیں آتی، پتا نہیں چینل فائیو آپ کو تنخواہ بھی وقت پر دیتا ہے یا نہیں،
لاہور میں اگر 500 صحافی ہیں تو اُن میں تفریق کی کم از کم دو درجن سطحیں موجود ہیں۔ بہت سی میں حذف کر رہا ہوں۔