A guest article in Urdu by Imran Malik:
نومبر 14 سے نومبر 16 تک ابو ظہبی ایگزیبیشن سینٹر ایڈنیک میں گلوبل میڈیا کانگریس ہوئی جہاں بھر کے میڈیا کی شخصیات نے شرکت کی، جی سی سی ممالک کی میڈیا آوٹ لیٹس کیساتھ ساتھ افریقہ، رشیا، یورپ اور لاطینی امریکہ کی نیوز ایجنسیوں نے بھی بڑے پیمانے پر حاضری لگوائی، اس کانگریس کا بنیادی مقصد آرٹیفیشل اینیٹیلیجینس سے جڑے چیلنجز پر سیر حاصل گفتگو ہوئی، اور پھر جرنلزم کے حوالے سے مختلف موضوعات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی
اس کانگریس کا آغاز 14 نومبر کو شیخ نہیان بن مبارک نے سرخ فیتہ کاٹ کر کیا اور اسکے بعد دنیا بھر سے آئے میڈیا نمائندگان کی بھر پور شرکت میں میڈیا اور اے آئی سے جڑے چیلنجز کو موضوع بنایا اور پھر اے آئی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ایک زبردست اوپننگ پریزیٹیشن ہوئی جسے ناظرین نے بے حد سراہا، کیونکہ اس تقریب کے دونوں اینکرز AI اینکرز تھے، پھر مہمان خصوصی نے مختلف میڈیا سٹالز کا دورہ بھی کیا
اس کانگریس کی خاص بات دنیا بھر سے میڈیا کے ماہرین کی میڈیا لیبز/ ورکشاپس تھیں جسمیں ناظرین کے سامنےاس کانگریس کا آغاز 14 نومبر کو شیخ نہیان بن مبارک نے سرخ فیتہ کاٹ کر کیا اور اسکے بعد دنیا بھر سے آئے میڈیا نمائندگان کی بھر پور شرکت میں میڈیا اور اے آئی سے جڑے چیلنجز کو موضوع بنایا اور پھر اے آئی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ایک زبردست پریزیٹیشن ہوئی جسے ناظرین نے سراہا، پھر مہمان خصوصی نے مختلف میڈیا سٹالز کا دورہ بھی کیا
پاکستانی میڈیا کا سٹال کیوں نہیں؟ کہاں گئی پاکستان کی ایجنسی اے پی پی؟
جہاں پاکستان کے نامور صحافی ایمیریٹس نیوز ایجنسی (WAM) کیطرف سے فری دورے پر بلائے گیے، وہیں پاکستانی نیوز ایجنسی APP کی نمائندگی کیلئے کوئی صاحب نظر نہیں آئے، جو کے کسی المیہ سے کم نہیں؟ کیونکہ دنیا بھر کی کئی نیوز ایجنسیوں کے نمائیندوں نے بتایا کے انکی پاکستان میں اے پی پی کیساتھ affiliation ہے، لیکن APP وہاں موجود نہیں تھی، ایسا کیوں؟
جہاں ویت نام اور چھوٹے چھوٹے افریقی و یورپی ممالک نے اپنے سٹال لگائے اور بھر پور شرکت کی وہیں APP نے نمائندگی ناں کر کے کافی مایوس کیا،
اگر ہم اینکرز کی بات کریں تو وہ فری رائیڈ پر آئے اور چند گھنٹے ہال میں گزارنے کیبعد اپنے ذاتی پی آر میں مشغول رہے، اور اگر کسی پاکستانی نے سینیئر صحافی حامد میر سے بات کرنی کی کوشش کی یا کوئی سوال پوچھنے کی جسارت کی تو اپنے رویے سے مایوس کیا، ہمیں داد دینی پڑے گی آج نیوز کے اینکر شوکت پراچہ کی جنہوں نے میڈیا کے کچھ لوگوں اور وہاں موجود پاکستانیوں کے سوالات بڑے خندہ پیشانی سے سنے اور اچھے پیرائے میں جوابات بھی دیے
ان سے پوچھا گیا کے پاکستان میں الیکشن وقت مقررہ پر ہو جائینگے جس پر انکا جواب تھا کے ایسا ممکن نہیں لگ رہا، الیکشن کا ہونا کسی معرکے سے کم نہیں ہو گا،
پھر ایک اور سوال پوچھا گیا کے عمران ریاض خان کو رہا ہوئے کافی عرصہ ہو چکا لیکن کسی نیوز اینکر نے انکا انٹرویو نہیں کیا کے، انہیں کس نے اٹھایا اور کیوں اٹھایا؟
جس پر انہوں نے کہا کے کسے نہیں پتا کے انہیں کس نے اور کیوں اٹھایا ہماری زبان سے آپ کیوں سننا چاہ رہے_
پاکستان ڈیجیٹل میڈیا ونگ کے سرفراز علی، میڈیا بائیٹس کے عمران ملک اور اسلام آباد کے سینیئر صحافی ناصر جمال نے تقریبا تمام میڈیا لیبز، ورکشاپس میں پاکستان کی بھر پور نمائندگی کی، اور میڈیا ماہرین سے سوالات پوچھ کر اپنی شرکت کو یقینی بنایا،
گلوبل میڈیا کانگریس کا پلیٹ فارم کو اس طریقے سے سجایا گیا کے تمام دنیا کے صحافی آپس میں نیٹ ورکنگ کر سکیں، اور چیلنجز کو مل کر حل کرنے کے سلوشن دیں، میڈیا کے لوگوں کا ایسا زبردست گلدستہ سجانے پر اماراتی نیوز ایجنسی مبارکباد کی مستحق ہے
پاکستان میں جہاں درجنوں نیوز چینلز اور پرنٹ میڈیا کے بڑے بڑے نیٹ ورک ہے، پی بی اے اور اے پی این ایس کو چاہیے تھا کے وہ چینلز اور میڈیا آؤٹ لیٹس کو منظم کرتے اور اس طرح کے گلوبل ایونٹ میں مل کر ہی پاکستانی پویلین بنا لیتے، لیکن یہ سوچے کون؟ کرے کون؟ اور حکومت کو کون جگائے کے کسطرح اس طرح کے ایونٹ میں نمائندگی ہونا کتنا اہم ہوتا ہے
اس سے پہلے یکم سے بارہ نومبر تک شارجہ میں دنیا کا تیسرا بڑا اور ریجن کا سب سے بڑا بک فیسٹیول ہوا، جہاں دنیا بھر سے سینکڑوں بک سیلرز نے اپنے سٹال لگائے، بارہ دن میں لاکھوں لوگوں نے اس فیسٹیول میں شرکت کی، لیکن اس فیسٹیول میں جہاں انڈیا کے 90 سے زیادہ بک سٹال موجود تھے وہیں پاکستان کیطرف سے صرف دو سٹال لگائے گئے،
ایک سٹال قرآن پاک بنانے والی کمپنی قدرت اللہ نے لگایا تھا، اور ایک سٹال اردو اور پاکستان سے محبت کرنیوالے سرمد خان نے مشکل ترین حالات میں لگایا، انہوں نے پاکستان سے کتابیں منگوائیں، ایمرجنسی میں سٹال خریدا جسکی قیمت تقریبا پاکستانی روپوں میں پانچ لاکھ بنتی ہے، اور پاکستان کو، اردو کو اور پاکستانیت کو زندہ رکھا، انہوں نے کہا کے کتابیں امپورٹ کرنا بہت بڑا مسئلہ ہے، کوئی سبسڈی نہیں ملتی، دوسری طرف انڈین حکومت کیطرف سے ایک ادارہ موجود ہوتا ہے، جو تمام بک پبلشرز کو یہاں لیکر آتے ہیں اور فیس کی مد میں حکومت پچاس فیصد سبسڈی بھی دیتے ہیں، لگتا ہے بحثیت قوم ہم پستیوں کو چھو رہے! لیکن سرمد خان نے اس ڈوبتے سورج میں اپنے چھوٹے سے دیے سے فیسٹیول میں امید کی کرن کو جگائے رکھا