افغانستان اور ایران کے درمیان کشیدگی گزشتہ ہفتے کے آخر میں اس حد تک بڑھ گئی کہ ایک سرحدی چوکی کے قریب فائرنگ کے شدید تبادلے میں کم از کم تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
عرب نیوز کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ اس جھڑپ کی جڑیں دونوں پڑوسی ملکوں کے مشترکہ آبی وسائل پر حقوق کے تنازعے میں ہیں۔
اتوار کو میڈیا رپورٹس سے ایسے اشارے ملے کہ ایرانی اور افغان سرحدی سیکورٹی فورسز کے درمیان لڑائی میں کمی آ گئی ہے اور دونوں فریق کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بات چیت میں مصروف ہو گئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خطے کے ممالک، خاص طور پر افغانستان کسی تنازعے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس قسم کی جھڑپوں کا آغاز بندوق کی نال سے ہوتا ہے جیسا ایران میں واقع ساسولی سرحدی چوکی پر گزشتہ ہفتے دیکھا گیا لیکن اس جنگ کا اختتام پھر علاقائی طاقتوں کی جانب سے کسی ایک فریق کا ساتھ دینے پر ہوتا ہے۔
یہ سرحدی جھڑپ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے اُس بیان کے چند ہفتوں کے بعد ہوئی جس میں انہوں نے طالبان کو خبردار کیا تھا کہ وہ مشترکہ دریائے ہلمند پر ایران کے پانی کے حقوق کی خلاف ورزی نہ کریں، جیسا کہ 1973 میں طے پانے والے دو طرفہ معاہدے میں طے پایا تھا۔
دریائے ہلمند ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل ہے اور افغانستان سے ایران کے بنجر مشرقی علاقوں میں بہتا ہے، کابل کی جانب سے بجلی پیدا کرنے اور زرعی زمین کو سیراب کرنے کے لیے ڈیم بنانے کے فیصلے کی وجہ سے تہران کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
ایران کو حالیہ برسوں میں پانی کی کمی کے بڑھتے ہوئے مسائل کا سامنا ہے۔ اس صورت حال نے 2021 میں کسانوں کے احتجاج کو جنم دیا تھا۔
ایران کے محکمہ موسمیات نے بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق 97 فیصد ملک کو کسی نہ کسی سطح پر خشک سالی کا سامنا تھا۔
ہلمند کے پانی کی تقسیم کے معاملے پر 18 مئی کو افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی اور ان کے ایرانی ہم منصب حسین امیرعبداللہیان کے درمیان بات چیت ہوئی تھی۔
سنیچر کو ایک بار پھر امیر خان متقی نے کابل میں ایرانی سفیر حسن کاظمی قم سے ملاقات کی جس میں پانی کے مسائل سمیت دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا۔
افغان وزارت خارجہ کے نائب ترجمان نے ٹوئٹر پر کہا کہ ’وزیر خارجہ نے یہ بھی بتایا کہ دونوں فریقوں کے درمیان مسائل کو باہمی بات چیت اور افہام و تفہیم کے ذریعے بہتر طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔‘
امیر خان متقی نے ہفتے کے اوائل میں کہا تھا کہ طالبان 1973 کے معاہدے پر قائم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’افغانستان اور خطے میں طویل خشک سالی کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔‘
افغانستان کو بھی مسلسل تیسرے سال خشک سالی کا سامنا ہے۔ ملک کو بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی کی طرف سے جاری کردہ 2023 کی ہنگامی واچ لسٹ میں تیسرے نمبر پر رکھا گیا تھا۔
رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی تھی کہ کس طرح موسمیاتی تبدیلی افغانستان میں بحران کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔
سیستان اور بلوچستان کے رہائشیوں کو مخاطب کرتے ہوئے امیر خان متقی نے کہا تھا کہ ’افغانستان آپ کے دکھ درد میں برابر کا شریک ہے۔‘
گزشتہ ہفتے جاری کیے ایک بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ ’میں ایران کی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ پانی کے اس اہم مسئلے پر سیاست نہ کرے۔ ہمارے لیے بہتر ہے کہ میڈیا میں ریمارکس دینے کے بجائے افہام و تفہیم اور براہ راست بات چیت کے ذریعے اس مسائل کو حل کیا جائے۔‘
بیان کے مطابق ’گزشتہ دو برس کے دوران امارت اسلامیہ افغانستان نے قابو میں آنے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ تاہم انسانی صلاحیتوں سے تجاوز کرنے والی قوت (موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا مسائل) کو سمجھنا چاہیے اور اس کے مطابق حل تلاش کرنا چاہیے۔‘
تاہم اس بیان کے چند ہی دنوں کے بعد پانی کی تقسیم پر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔
طالبان عہدیداروں نے ایران پر الزام عائد کیا کہ سنیچر کی صبح افغانستان کے صوبے نمروز اور ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان کی سرحد کے ساتھ پہلے دوسری طرف سے فائرنگ کی گئی۔
پانی کے حقوق پر افغان ایران کشیدگی میں اضافہ سنہ 2021 میں طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد سے دونوں حکومتوں کے درمیان اُن دیگر مسائل پر اختلافات کے درمیان سامنے آیا ہے جن میں سرحدوں پر پچھلی جھڑپیں اور افغان مہاجرین کے ساتھ ناروا سلوک کی اطلاعات بھی شامل ہیں۔
اگرچہ ایران سرکاری طور پر طالبان انتظامیہ کو تسلیم نہیں کرتا لیکن اس نے افغانستان کے نئے حکمرانوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
کئی دہائیوں سے ایران نے اپنے جنگ زدہ پڑوسی ملک میں مسلح تصادم سے فرار ہونے والے لاکھوں افغانوں کی میزبانی کی، اور سنہ 2021 سے مغربی سرحد کو عبور کرنے والے افغانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے سنہ 2022 کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً چھ لاکھ افغان پاسپورٹ رکھنے والے ایران میں رہتے ہیں اور تقریباً سات لاکھ 80 ہزار مہاجرین کے طور پر رجسٹرڈ ہیں، جب کہ 21 لاکھ افغان غیر دستاویزی طور پر مقیم ہیں۔