شہزادہ ہیری اور ان کی اہلیہ میگھن مارکل کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ نیویارک شہر میں ان کی گاڑی کا فوٹوگرافرز کی جانب سے مسلسل تعاقب کیا گیا اور وہ اس دوران ’خطرناک حادثے سے بال بال بچے‘۔
ترجمان کے مطابق نیویارک میں ایک ایوارڈ تقریب میں شرکت کے بعد شہزادہ ہیری، میگھن مارکل اور ان کی والدہ جیسے ہی گاڑی میں واپس جانے لگے تو فوٹوگرافروں کی گاڑیاں ان کا مسلسل تعاقب کرتی رہیں۔ یہ سلسلہ دو گھنٹوں تک جاری رہا ہے جس کے نتیجے میں وہ ’متعدد مرتبہ حادثوں سے بال بال بچے۔‘
نیویارک پولیس ڈپارٹمنٹ (این وائے پی ڈی) کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد کوئی زخمی نہیں ہوا اور نہ ہی تاحال اس حوالے سے گرفتاریاں کی گئی ہیں۔
بی بی سی نیوز کی جانب سے آزادانہ طور پر تاحال ان تفصیلات کی تصدیق نہیں کی جا سکی ہے تاہم اس حوالے سے بیانات اور معلومات بدھ کو وقت کے ساتھ سامنے آتے رہے۔
نیویارک پولیس ڈپمارٹمنٹ نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’متعدد فوٹوگرافروں نے ہیری اور میگھن نے کے سفر مشکل بنایا۔‘
پولیس کا کہنا تھا کہ تاحال کسی کے زخمی یا گرفتار ہونے کی اطلاع نہیں ملی۔ بکنگھم پیلس کی جانب سے واقعے پر کوئی بیان نہیں دیا گیا۔
اس حوالے سے ایسے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں کہ یہ تعاقب چھ کے قریب گاڑیوں کی جانب سے کیا گیا جو انتہائی تیز رفتاری اور بے ہنگم انداز میں چلائی جا رہی تھیں اور اس دوران ٹریفک سگنلز کی بھی پرواہ نہیں کی جا رہی تھی اور فٹ پاتھ پر گاڑی چلانے کے ساتھ ساتھ جوڑے کی گاڑی کو روکنے کی کوشش بھی کیی گئی اور ون وے سٹریٹ میں گاڑی ریورس بھی کی گئی اور ڈرائیونگ کرتے ہوئے ان کی تصاویر لی گئیں۔
بی بی سی نیوز کو اس بات کا علم ہے کہ ہیری اور میگھن اس وقت ایک دوست کے گھر پر مقیم ہیں اور انھوں نے فوری طور پر واپس جانے کا ارادہ سکیورٹی خدشات کے باعث ترک کیا۔
جوڑے اور میگھن کی والدہ ڈوریا ریگلینڈ نے فوٹوگرافرز سے بچنے کے لیے مین ہیٹن پولیس سٹیشن میں پناہ لینے کی کوشش کی۔ اس دوران نیویارک ٹیکسی پر باقی سفر طے کرنے کا بھی منصوبہ تھا جس پر ٹیکسی کا بورڈ آویزاں کر کے اس میں تمام افراد اور ایک سکیورٹی افسر نے سوار ہونا تھا۔
تاہم اس گاڑی کی بھی فوٹوگرافروں نے نشاندہی کر لی جس کے بعد انھیں اپنی سکیورٹی گاڑیوں میں واپس آنا پڑا۔
ٹیکسی ڈرائیور سکھ چرن سنگھ جو سونی کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ انھوں نے 67 سٹریٹ سے چار سواریاں اٹھائیں۔
’ایک سکیورٹی گارڈ نے ہاتھ لہرایا اور اس کے بعد اچانک شہزادہ ہیری اور ان کی اہلیہ ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔ ہم ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ ایک گند اٹھانے والا ٹرک ہمارے راستے میں آیا اور اچانک فوٹوگرافروں نے آ کر ہماری تصاویر بنانی شروع کر دیں۔
’انھوں نے ابھی مجھے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ کہاں جانا چاہتے ہیں تاہم پھر انھوں نے مجھے پولیس سٹیشن واپس جانے کا کہا۔‘
انھوں نے کہا کہ وہ ’بھلے لوگ‘ معلوم ہوتے تھے جو ’بظاہر گھبرائے ہوئے لگ رہے تھے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں ’تعاقب کے نتیجے میں بال بال بچنے‘ کے دعوے شاید بڑھا چڑھا کر بیان کیے گئے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک فوٹوگرافروں کا رویہ ’جارحانہ‘ نہیں تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’نیویارک سب سے محفوظ جگہ ہے کیونکہ یہاں آپ کو پولیس سٹیشن اور پولیس افسر ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ فوٹوگرافر ہمارے پیچھے تھے۔۔۔ تاہم انھوں نے فاصلہ برقرار رکھا ہوا تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس مختصر سے سفر کے لیے انھیں پچاس ڈالر دیے گئے۔ ٹیکسی ڈرائیور کی جانب سے بتائی گئی کہانی اس صورتحال میں صرف دس منٹ کا احاطہ کرتی ہے جو ترجمان کے مطابق دو گھنٹے تک جاری رہی۔
ڈرائیور کا تجزیہ جوڑے کی سکیورٹی ٹیم کے رکن کرس سانچیز کے بیان کے بالکل برعکس ہے جس میں انھوں نے سی این این سے بات کرتے ہوئے اس پوری صورتحال کو ’انتہائی بے ہنگم‘ قرار دیا اور کہا کہ ایک موقع پر فوٹوگرافرز نے ہیری اور میگھن کی لموزین کو روکنے کی کوشش بھی کی۔
انھوں نے کہا کہ ’کئی موقعوں پر عام عوام کو بھی خطرہ تھا۔ اس سے جانی نقصان بھی ہو سکتا تھا۔‘
امریکہ میں جوڑے کی جانب سے نجی سکیورٹی کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن ہیری اس وقت لندن میں اس بارے میں قانونی لڑائی لڑ رہے ہیں کہ آیا وہ برطانیہ میں دورے کے دوران میٹروپولیٹن پولیس کی سکیورٹی استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں۔
جس ایوارڈ کی تقریب پر یہ دونوں موجود تھے وہ ہیری اور میگھن کی جانب سے بادشاہ چارلس کی تقریب تاج پوشی کے بعد سے پہلی دفعہ کسی بھی تقریب میں شرکت تھی۔
اس دوران میگھن نے بلیک ووٹرز میٹر کی شریک بانی لاتوشا براؤن کے ساتھ ایک ایوارڈ بھی وصول کیا۔ نیویارک شہر کے میئر ایرک ایڈمز نے رپورٹرز کو بتایا کہ دو پولیس اہلکار اس دوران ’زخمی ہو سکتے تھے‘ اور ایسے تعاقب کے دوران ’فٹ پاتھ پر کھڑے کسی معصوم شخص کی ہلاکت انتہائی ہولناک ہو سکتی تھی۔‘
شہزادہ ہیری اور میگھن کی جانب سے جاری اعلامیے میں یہ دعویٰ نہیں کیا گیا کہ یہ ’تیز رفتار تعاقب‘ تھا۔ تاہم ان کی جانب سے اسے دو گھنٹوں پر محیط ’مسلسل تعاقب‘ کا نام دیا گیا ہے۔ شہزادہ ہیری کی کتاب ’پرنس ہیری: دی انسائیڈ سٹوری کے مصنف ڈنکن لارکومب نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہیری اور میگھن کی امریکہ میں سکیورٹی ’کے ساتھ کچھ بہت برا ہوا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ان افراد کے لیے ایک بڑے سرپرائز سے کم نہیں ہو گا جو برطانیہ میں ہیری کی سکیورٹی پر مامور تھے۔ اس حوالے سے اہم سوالات کیے جا سکتے ہیں کہ کیا فوٹوگرافرز اب بھی ایسے کام کر سکتے ہیں۔‘
شہزادہ ہیری کی والدہ شہزادی ڈیانا سنہ 1997 میں پیرس میں ایک کار حادثے میں اس وقت ہلاک ہوئی تھیں جو فوٹوگرافرز ان کا پیچھا کر رہے تھے۔ بی بی سی کو دستاویزی فلم ڈیانا 7 ڈیز میں شہزادہ ہیری فوٹوگرافروں کو ’کتوں کا غول‘ قرار دیتے ہیں جو ان کی والدہ کا مسلسل تعاقب کرتے رہتے تھے۔
انھوں نے اس دوران بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جب بھی وہ باہر جاتیں تو ان کا پیچھا کرنے کے لیے ان کی بڑی تعداد موجود ہوتی۔ میرا مطلب ہے کہ کتوں کا غول جو ان کا تعاقب کرتا، انھیں ہراساں کرتا، ان کا پیچھا کرتا، ان پر جملے کستا، ان پر تھوکتا تاکہ وہ کوئی ردِ عمل دیں، ان پر غصہ ہوں تاکہ وہ اس کی تصویر اتار سکیں۔‘
شہزادہ ہیری اس وقت برطانوی میگزین پریس کے خلاف متعدد مقدمات کر چکے ہیں جن میں فو ہیکنگ اور غیر قانونی طور پر معلومات حاصل کرنے جیسے الزامات شامل ہیں۔
رواں ہفتے کے آغاز میں شہزادے کے ایک وکیل نے لندن میں ایک عدالت کو بتایا کہ انھیں حکومت کے ایک فیصلے کو چیلنج کرنے کی اجازت دینی چاہیے جس میں انھیں ملک میں پولیس کے تحفظ کے لیے اخراجات دینے سے روکا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ شہزادہ ہیری اور میگھن سنہ 2020 میں شاہی ڈیوٹی سے دستبردار ہو گئے تھے جس کی متعدد وجوہات میں سے ایک وجہ برطانوی ٹیبلائڈ پریس کی جانب سے انھیں ہراساں کرنا شامل ہے۔
شہزادہ ہیری کی جانب سے میڈیا کے رویہ میں تبدیلی کی جنگ کو اپنی ’زندگی کا مشن‘ قرار دیا گیا ہے۔ آئندہ ہفتے وہ لندن کی ایک عدالت میں فون ہیکنگ کیس میں ثبوت پیش کریں گے۔