پاکستان نے نیوزی لینڈ کے خلاف ایک روزہ میچوں کی سیریز چار ایک سے جیت لی لیکن اتوار کی رات ہونے والے اس سیریز کے آخری میچ میں شکست کے باعث ون ڈے رینکنگ میں صرف 48 گھنٹے بعد پہلے نمبر سے پاکستان تیسری پوزیشن پر پہنچ گیا۔
اس میچ میں 47 رن سے شکست کا مارجن اس سے بھی زیادہ ہوتا اگر افتخار احمد ایک بہترین اننگز نہ کھیلتے۔
پاکستان نے 300 رن کے ہدف کے تعاقب میں اننگز کا سست رفتاری سے آغاز کیا۔ فخر امام بھی اپنی روایتی فارم میں نظر نہیں آئے اور امام الحق کی جگہ کھیلنے والے اوپنر شان مسعود بھی کچھ زیادہ متاثر نہیں کر سکے۔
شان مسعود 20 گیندوں پر سات رن بنا کر آؤٹ ہوئے تو کپتان بابر اعظم بھی صرف ایک ہی رن بنانے کے بعد پولین لوٹ گئے۔ ان کو ہینری شپلے نے آؤٹ کیا۔
14ویں اوور میں محمد رضوان بھی صرف نو رن بنانے کے بعد ہینری شپلے کی ہی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہو گئے۔
اس وقت مجموعی سکور 52 تھا جبکہ تین بلے باز آوٹ ہو چکے تھے۔ فخر زمان 19ویں اوور میں آوٹ ہوئے تو وہ 33 رن بنانے کے لیے 66 گیندوں کا استعمال کر چکے تھے۔
پاکستان کا مجوعی سکور بھی اس وقت 66 ہی تھا اور چار وکٹیں گرنے کے بعد بظاہر میچ میں واپسی کے امکانات ختم ہو چکے تھے۔
تاہم افتخار احمد اور آغا سلمان نے اس موقعے پر ذمہ دارانہ بلے بازی کا مظاہرہ کیا۔ دونوں کی شراکت میں پاکستان کا سکور رفتہ رفتہ بڑھتا رہا۔
163 کے سکور پر جب آغا سلمان 57 رن بنا کر آوٹ ہوئے تو اب تقریبا 15 اوور باقی تھے جبکہ جیت کے لیے 127 رن درکار تھے۔
اب تمام امیدیں افتخار احمد سے ہی جڑی تھیں۔ ایسے میں شاداب خان (14) اور اسامہ میر (20) نے کسی حد تک افتخار کا ساتھ دیا لیکن ان دونوں کے آؤٹ ہو جانے کے بعد میچ کا نتیجہ واضح ہو چکا تھا۔
پچھلے میچ کے آخری اوور میں اپنی بلے بازی کا رنگ دکھانے والے شاہین شاہ آفریدی اس بار صفر پر ہی آؤٹ ہو گئے۔
تاہم افتخار احمد نے ہمت نہیں ہاری۔ یکے بعد دیگرے دوسری جانب سے وکٹیں گرنے کا سلسلہ جاری رہنے کے باوجود ان کی بیٹنگ نے ہی میچ میں دلچسپی کا عنصر برقرار رکھا۔
230 کے مجموعی سکور پر نو وکٹیں گر جانے کے بعد واحد دلچسپی صرف اس بات میں باقی تھی کہ کیا افتخار احمد اپنی سنچری کر سکیں گے یا نہیں۔
حارث روف اس کوشش میں ان کا مکمل ساتھ دینے میں ناکام رہے اور جب وہ رن آؤٹ ہوئے تو افتخار احمد 94 رن پر ناٹ آؤٹ تھے۔
افتخار نے یہ سکور 72 گیندوں پر آٹھ چوکوں اور دو چھکوں کی مدد سے کیا۔
پاکستان کی اس پرفارمنس پر ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ ’افتخار احمد بد قسمت رہے کہ پاکستان میچ نہیں جیت سکا لیکن شاداب خان شاہین آفریدی اسامہ میر نے بہت ہی خراب ناقابل یقین شاٹس کھیلیں۔‘
انھوں نے شان مسعود کو کھلانے کے فیصلے پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’شان مسعود کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی اگر آج امام الحق کھیلتا تو پاکستان یقینی طور پر جیت جاتا۔‘
سلیم خالق نے لکھا کہ ’افتخار احمد نیوزی لینڈ سے ون ڈے سیریزکے ابتدائی اسکواڈ میں شامل نہ تھے، انھیں بعدمیں منتخب کیا گیا لیکن پانچویں ون ڈے میں عمدہ اننگز کھیل کر انھوں نے ثابت کر دیا کہ وہ ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم کے اہم کھلاڑی ثابت ہو سکتے ہیں۔ افتخار نے کوشش تو بہت کی لیکن بدقسمتی سے ٹیم کو فتح نہ دلا سکے۔‘
نیوزی لینڈ کی جانب سے ہینری شپلے نے صرف 34 رن دے کر تین وکٹیں حاصل کیں اور میچ آف دی میچ قرار پائے۔
رچن رویندرا نے بھی تین وکٹیں حاصل کیں۔
اس سے قبل نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 299 رن بنائے جس میں اوپنر ول ینگ کی 87 رن کی اننگز بھی شامل تھی۔
کپتان ٹام لیتھم نے 59 جبکہ مارک چیپمین نے 43 رن بنائے۔